دوسری قسط:

قادیانیت کا مکروہ چہرہ!

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب

از: مولانا سعید احمد جلال پوری‏، مدیر ماہنامہ بینات کراچی، پاکستان

 

سوال: (۴) ”حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کاپانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟“

جواب: دیکھا جائے تو اس اعتراض کے پیچھے بھی مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی امت کی انگریز حکومت کی نمک خواری کا جذبہ کارفرما ہے، ورنہ مرزائیوں اور تمام دنیا کو معلوم ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مرزائیوں، قادیانیوں اور ان کے باوا غلام احمد قادیانی کا اسلام اور قرآن پر نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں؛ بلکہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

(۲) اگر قادیانی، قرآن کریم کو مانتے ہوتے اوراسے اللہ کا کلام سمجھتے ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود جہاد کا حکم دینا ہوتا تو مکی دور میں اس کا حکم دیتے، جبکہ مسلمان کفار و مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے، اگر جہاد کا معاملہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کو صبر کی تلقین کیوں فرماتے؟ حبشہ کی ہجرت کی اجازت کیوں دی جاتی؟ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کیوں فرماتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کفار اور مشرکین مکہ کے مظالم کیوں برداشت کرتے؟

(۳) ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے، اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا، اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا، چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

الف: ”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا، وان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر“ (الحج:۳۹)

ترجمہ: ”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“

ب: ”یا ایہا النبی حرض المومنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین، وان یکن منکم مائة یغلبوا الفا من الذین کفروا بانہم قوم لا یفقہون“ (الانفال: ۶۵)

ترجمہ: ”اے نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا، اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔“

ج: ”کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم، وعسٰی ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم، وعسٰی ان تحبوا شیئًا وہو شرلکم، واللّٰہ یعلم وانتم لاتعلمون“(البقرہ:۲۱۶)

ترجمہ: ”فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو، اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔“

ان آیات اوراسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی، اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے، اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قوت و حشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔

(۴) اسی طرح یہ بھی واضح کیاگیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف و اذیتوں پر صبر و برداشت کا حکم تھا تو اب جوابی، بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایاگیاکہ یہ صبر و برداشت ایک وقت تک تھی، اب اس کا حکم ختم ہوگیاہے اور جہاد و قتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہا ہوچکی۔

نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار، مشرکین اور ان کے مظالم، اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے، اس لئے حکم ہوا کہ: ”وقاتلوہم حتی لاتکون فتنة“ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہوجائے۔

اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایاگیا:

الف: ”یایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم ومأوٰہم جہنم وبئس المصیر (التوبہ:۷۳)

ترجمہ: ”اے نبی! لڑائی کرکافروں سے اور منافقوں سے اور تندخوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بڑا ٹھکانا ہے۔“

ب: ”قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ناقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللّٰہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللّٰہ بامرہ، واللّٰہ لایہدی القوم الفٰسقین“ (التوبہ: ۲۴)

ترجمہ: ”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال، جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری، جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو، تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“

ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کاحکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے، بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے، اور جو لوگ اپنی محبوبات و مرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجا نہیں لائیں گے، وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اللہ کا رسول، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجالائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اُسے فرض جانیں تواس میں اللہ کے نبی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضا کے خلاف سب مرغوبات و محبوبات کو چھوڑ کر اللہ کا حکم بجالائیں، وہ قابلِ طعن ہیں یا وہ، جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟

بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے زمرے اور مصداق میں آتاہے۔

(۵) اس سے ہٹ کر مشاہدات، تجربات، عقل اور دیانت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو اللہ کے باغیوں اور اللہ کی مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کے خلاف جہاد یا اعلان جنگ عین قرینِ قیاس ہے۔

اس لئے کہ دنیا کے دو پیسے کے بادشاہوں میں سے کسی کے خلاف اس کی رعایا کا کوئی فرد اعلان بغاوت کردے تو پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کیاجاتا ہے اور ایسے باغی کے خلاف پورے ملک کی فوج اور تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے تاآنکہ اس کو ٹھکانے نہ لگادیا جائے۔

اور مہذب دنیا میں ایسے باغیوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت ہوتی ہے، بلکہ اگر ایسے باغی گرفتار ہوجائیں اور سوبار توبہ بھی کرلیں تو بھی ان کی جان بخشی نہیں ہوتی، اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم، برادری یا افراد، خالق ومالک کائنات اور رب العالمین سے بغاوت کریں، اور خلق خدا پر،سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ بند کردیں، تو کیا اس رب العالمین اورمالک ارض و سما کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ ان شوریدہ سروں کا علاج کرے اور ان کو ٹھکانے لگائے؟ دیکھا جائے تو جہاد کا یہی مقصد ہے، اور یہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔

(۶) پھر جہاد صرف شریعت محمدی ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی مشروع تھا، جیسا کہ بائبل میں ہے:

”پھر ہم سے مڑکر بسن کا راستہ لیااور بسن کا بادشاہ عوج اور عی# میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں جنگ کرنے کو آیا، اور خداوند نے مجھ سے کہا: اس سے مت ڈرو کیونکہ میں نے اس کو اور اس کے سب آدمیوں اور ملک کو تیرے قبضہ میں کردیا ہے، جیسا تونے اور یوں کے بادشاہ سیحون# سے جو حسبون# میں رہتا تھا کیا، ویساہی تو اس سے کرے گا؟ چنانچہ خداوند ہمارے خدانے لبسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کردیا اور ہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا، اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر لے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے نہ لے لیا ہو․․․ اور جیسا ہم نے سیحون# کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ہی ان سب آباد شہروں کو مع عورتوں اور بچوں کے بالکل نابود کرڈالا۔“ (استثنا، باب: ۳، آیت: ۱،۲،۳، اور ۶)

اسی طرح باب:۲، آیت: ۱۰ تا ۱۴ میں ہے:

”جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدپہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں، اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو، اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا۔“

سوال (۵) ”مالِ غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں بھیڑبکریاں ہیں، جنہیں مالِ غنیمت کے طورپر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟“

جواب: دشمن سے لڑائی، قتال اور جہاد کی صورت میں ان کے جو افراد گرفتار ہوجائیں وہ قیدی کہلاتے ہیں، پھر اگر مسلمان فوج کے کچھ افراد مخالفین کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں تو کفار قیدیوں سے تبادلہ کرکے مسلمانوں کو چھڑایا جائے گا، اس کے علاوہ جو بچ رہیں گے، ان کو غلام اور لونڈیاں قرار دے کر انہیں مسلمان فوجیوں میں بطور مال غنیمت تقسیم کردیا جائے گا، اس کا نام ہے: ”غلامی کا مسئلہ“۔

غلامی کے اس مسئلہ پر عام طور پر اسلام دشمن یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور مسلمانوں کی جانب سے یہ انسانوں پر ظلم ہے۔

اس عنوان سے عیسائی دنیا اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار بھی اعتراض کیاکرتے ہیں، قادیانیوں کا اس مسئلہ پر اعتراض کرنا دراصل اپنے عیسائی آقاؤں کی ہم نوائی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے مترادف ہے؛ بلکہ ان کے منہ کی بات چھین کر اپنے منہ سے نکالنے کی مانند ہے، جبکہ قادیانیوں اور ان کے آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ اسلام نے جاری نہیں فرمایا؛ بلکہ یہ قبل از اسلام عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی جاری تھا، چنانچہ غلاموں اور لونڈیوں کا تذکرہ خود بائبل میں بایں الفاظ موجود ہے:

الف: ”اور یعقوب نے لابن سے کہاکہ میری مدت پوری ہوگئی، سو میری بیوی مجھے دے تاکہ میں اس کے پاس جاؤں تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں کو بلاکر جمع کیا اور ان کی ضیافت کی، ․․․ اور لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔“ (پیدائش، باب: ۲۹، آیت: ۲۱ تا ۲۴)

ب: باب: ۳۰، آیت: ۹ میں ہے:

”اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔“

ج: استثناء باب: ۲۳، آیت: ۱۵، ۱۶ میں ہے:

”اگر کسی کا غلام اپنے آقاکے پاس سے بھاگ کر تیرے پاس پناہ لے تو تو اسے اس کے آقا کے حوالہ نہ کردینا۔“

اس کے علاوہ قبل از اسلام مشرکین مکہ میں بھی غلامی کا رواج تھا، بلکہ یہود ونصاریٰ سے لے کر کفار ومشرکین مکہ تک سب ہی لوگ غلاموں اور لونڈیوں کو کسی انسانی سلوک کا مستحق نہیں سمجھتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر زبردستی غلام بناکر بیچ دیتے تھے۔ جبکہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے اس کی شدید مذمت فرمائی اور قرآن کریم نے مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اسی طرح کے حسنِ سلوک اور نیک برتاؤ کی تلقین اور تاکید فرمائی، جس طرح کے وہ اپنے والدین کے ساتھ سلوک کے روادار تھے۔ ملاحظہ ہو ارشادِ الٰہی:

”واعبدوا اللّٰہ ولاتشرکوا بہ شیئًا وبالوالدین احساناً وبذی القربٰی والیتٰمٰی والمساکین والجار ذی القربٰی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم، ان اللّٰہ لایحب من کان مختالاً فخورًا۔“(النساء: ۳۶)

ترجمہ: ”اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اورہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ، بے شک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا۔“

دیکھا جائے تو اس آیت شریفہ میں دو قسم کے احکام ایک ہی جگہ اور ایک ہی سیاق و سباق میں بیان کئے گئے ہیں، ایک: اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دوسرے: اس کی مخلوق سے حسنِ سلوک اور نیکی کا برتاؤ کرنا۔ پھر دوسرے حصہ میں بطور خاص کچھ ایسے لوگوں کو مخصوص کرکے بیان کیاگیا ہے، جن کے ساتھ انسان نیکی میں بے اعتنائی برتتا ہے، تاکہ ان کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ گویا ان دونوں احکام کو ایک ہی جگہ بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، اس کا شریک نہ ٹھہرانا اسلام لانے کے لئے ضروری ہے، ویسے ہی اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ شریعت کے یہی دو اہم اجزاء ہیں، ایک اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق، اس کی طاعت و عبادت اور دوسرے اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کا معاملہ۔

پس جہاں بائبل میں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق ایک حرف بھی نہیں کہا گیا، وہاں قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کو اس قدر ضروری قرار دیاگیا ہے، جیسے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو، لہٰذا جیسے والدین کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے ویسے ہی غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کو ایک ہی آیت میں اور ایک ہی قسم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتاہے کہ غلامی کا مسئلہ اگرچہ پہلے سے جاری تھا، جس کو اسلام نے بھی بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر باقی رکھا، مگر دنیائے عیسائیت اور کفر و شرک کی زیادتیوں سے ہٹ کر اسلام نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ حسن معاشرت کا درس دیااور اس کی تاکید کی، چنانچہ غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کی جانب سے حسن سلوک کی اس اظہرمن الشمس حقیقت کا کوئی دشمنِ اسلام بھی انکار نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے عیسائی مصنف ہلیو اپنی کتاب ڈکشنری آف اسلام میں کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ:

”یہ بالکل صاف امر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث میں غلاموں کے ساتھ نیکی کرنے کی بڑے زور کے ساتھ تاکید کی گئی ہے۔“

غلاموں کے ساتھ اسی حسن برتاؤ اور اسلام میں ان کی اسی اہمیت و عظمت کو دیکھ کر ایک صحابی رسول یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:

”والذی نفسی بیدہ لولا الجہاد فی سبیل اللّٰہ والحج وبرّ اُمّی لاحببت ان اموت وانا لملوک“

ترجمہ: ”قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور اپنی ماں کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں پسند کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں۔“

یہ ایک آزاد اور صحابی رسول کی آرزو اور تمناہے، کیونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ جس حسن سلوک کا حکم دیا اور جس طرح اس کی تاکید فرمائی،اس کو دیکھ کر کون ایسا ہوگا جو اپنے آپ کو غلام نہ بنالیتا، چنانچہ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلہ میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”ان اخوانکم خولکم جعلہم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یأکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفوہم ما یغلبہم فان کلفتموہم فاعینوہم (صحیح بخاری، ص:۹، ج:۱)

ترجمہ: ”یعنی یہ تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے قبضہ میں دیاہے، بس جس شخص کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے یعنی قبضہ میں ہو، اسے چاہئے کہ جو چیز وہ خود کھائے، اسے بھی وہی کھلائے،اور جو لباس خود پہنتا ہے،اسے بھی اسی طرح کا پہنائے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ڈالو تواس میں ان کی مدد کرو۔“

غرض غلامی کا رواج یہودیت، عیسائیت، ہندومت، تمام یورپی اقوام اور قبل از اسلام کفار ومشرکین سب کے ہاں تھا، مگر غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ان کے حقوق کی پاسداری اور ان کی آزادی کی اہمیت پر جس قدر اسلام اور پیغمبر اسلام نے زور دیا ہے دیگر مذاہب میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں پایا جاتاہے۔

دیکھاجائے تو اسلام کو غلامی کے مسئلہ میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والوں کا دامن اس مسئلہ میں سب سے زیادہ داغدار ہے، کیونکہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں بھی غلاموں کے اخلاقی اور معاشرتی کسی قسم کے حقوق کا ذرہ بھر تذکرہ نہیں تھا، بلکہ بائبل میں تو صرف غلاموں کو اس کی تلقین تھی کہ وہ اپنے آقاؤں کی ایسی اطاعت کریں، جیسے کوئی عیسائی اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کیا کرتا ہے اور غلاموں کو تلقین تھی کہ اگر کوئی اپنے آقاکے پاس سے بھاگ جائے تو واپس اپنے آقا کے پاس چلاجائے، اس کے مقابلہ میں غلاموں کے آقاؤں کو ایسی کوئی ہدایت نہ تھی کہ وہ اپنے غلاموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں؟ اور نہ ہی اس پر کوئی قدغن تھی کہ کوئی شخص کسی آزاد کو غلام بنالے، یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے نیگروؤں کو عیسائیوں کے ہاں پکڑپکڑ کر غلام بنایاجاتاتھا۔ چنانچہ غلامی کی رسم ختم کرنے کے دعویداروں کے منہ پر اس سے زیادہ زوردار طمانچہ کیا ہوگا کہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ:

”۱۴۲۲/ میں گنزلس نے دس غلام پرتگال کے شاہزادہ ہنری کو بطور تحفہ پیش کئے۔ ۱۴۴۳/ میں ننیزٹریسٹن افریقہ کے لئے ایک مہم پر بحری راستہ سے روانہ ہوا اور چودہ غلاموں کو لے کر واپس آیا، افریقہ کے لوگ فطرتاً ان حملوں کو ناپسند کرتے تھے، جو ان کو غلام بنانے کی غرض سے کئے جاتے تھے۔ یورپین تاجر اپنے حملوں کے عذر پیدا کرنے کے لئے اہل افریقہ میں آپس میں جنگ کرادیتے تھے۔ ۱۵۶۲/ میں سرجان ہاکنگ گونیا کے لئے روانہ ہوا اور تین سو غلام حاصل کئے، پھر ان کو فروخت کرکے انگلینڈ چلا آیا۔ فرانسیسی، اسپینی اور ڈچ ان سب کے ہاں غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا، لیکن انگریزوں کے ہاں اس کا سراغ چارلس کے اس فرمان تک نہیں ملتا، جو اس نے ۱۶۳۱/ میں افریقہ کمپنی کے نام اس مضمون کا لکھا تھا کہ: وہ برطانوی علاقوں کے لئے افریقی غلام مہیا کرے۔ ۱۶۴۰/ میں تیرہویں لوئس نے ایک فرمان اس مضمون کا شائع کیا کہ تمام وہ افریقی جو فرانس کی نوآبادیات میں سکونت رکھتے ہیں، بہرحال غلام بنائے جاسکتے ہیں۔ ۱۶۵۵/ میں کرومویل نے جمیکا کو اسپین والوں سے چھینا تو دیکھا کہ وہاں پندرہ سو سفید فام اور اتنے ہی نیگرو غلام موجود ہیں اور خود وہاں کے رہنے والوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ ۱۶۶۲/ میں تیسری افریقہ کمپنی قائم ہوئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی مغرب کی ہندوستانی نوآبادیات میں تین ہزار غلام سالانہ مہیا کئے جائیں۔ ۱۶۷۹/ اور ۱۶۸۹/ کے درمیان صرف دس برس کی مدت میں کم و بیش ساڑھے چار ہزار غلام ہر سال برطانوی نوآبادیات میں آباد کئے جاتے رہے۔ فرانس کرونے ۷/مارچ ۱۶۸۷/ کو ان غریبوں کی سرگزشت لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ”اس جگہ کی سب سے بڑی تجارت ان غلاموں کی ہے جن کو یہاں لایا جاتا ہے، یہ لوگ یہاں بالکل مادر زاد برہنگی کے ساتھ آتے ہیں اور ان کے گاہک ان کا منہ کھول کھول کر دیکھتے ہیں اوران کا امتحان گھوڑوں اور چوپاؤں کی طرح کرتے ہیں۔“ ۱۷۱۳/ میں انگریزوں اور اسپینیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس کی رو سے انگلینڈ نے اس بات کا وعدہ کیاتھا کہ اسپین والوں کو تیس سال تک برابر چار ہزار آٹھ سو غلام سالانہ مہیاکرتا رہے گا، غلاموں کی تجارت سے جو نفع حاصل ہوتاتھا، انگلینڈ اور اسپین دونوں کے بادشاہ اس میں ایک حصہ کے شریک تھے۔ افریقہ کے غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا، یہاں تک کہ ۱۷۸۸/ میں جب غلامی کے انسداد کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیاگیاتو اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس وقت افریقہ سے ہر سال دو لاکھ غلام لے جائے جاتے تھے، جن میں سے ایک لاکھ امریکا وغیرہ اور بقیہ افریقہ کے مشرقی ساحل سے ایران اور کچھ تھوڑے سے وسط افریقہ سے ترکی اور مصر لے جائے جاتے تھے۔“ (بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور، مولانا سعید احمد اکبرآبادی،ص:۴۶)

غلامی کو ختم کرنے کے نام نہاد دعویداروں کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود، ان کے پاس اس وقت بھی پچاس لاکھ غلام موجود تھے، جبکہ مسلمانوں کے ہاں غلامی کا تصور کبھی کا معدوم ہوچکا تھا، چنانچہ ۱۶/اپریل ۱۹۳۸/ کے اخبار نیشنل کال کی ایک خبر ملاحظہ ہو:

”جنیوا میں جمعیت اقوام کی مشورہ کمیٹی جو چند ممبران پر مشتمل ہے اور جو غلامی کے مسئلہ پر غور و خوض کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے،اس نے ۳/مارچ سے ۱۲/اپریل ۱۹۳۸/ تک اپنے اجلاس کئے، ۱۹۳۰/ لیگ اسمبلی لارڈسیل نے برطانوی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا کہ: دنیا میں اب بھی کم از کم پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ غلام موجود ہیں، یہ سب اس کے باوجود ہے کہ ۱۹۲۶/ میں جمعیت اقوام کی مجلس میں یہ اعلان کیاگیا تھا کہ دستخط کرنے والی حکومتیں جن کی تعداد ۲۸ تھی، اپنے اپنے علاقوں میں غلاموں کی تجارت کو تشدد آمیز حکمت عملی سے کام لے کر بالکل ختم کردیں گی۔ ان حکومتوں میں امریکا کی ریاست ہائے متحدہ بھی شامل تھیں، اس مشورہ کمیٹی کے تقرر کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غلام حاصل کرنے کے لئے جو باقاعدہ اور منظم حملے ہوتے تھے، وہ رک گئے۔“ (بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور، ص:۴۸)

قارئین اور خصوصاً قادیانی بتلائیں کہ غلامی کی لعنت کو رواج دینے والے مسلمان ہیں؟ یا ان کے آقا عیسائی؟ اسلام میں غلامی کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمان فوج کفار سے جنگ کرے اور کفار مرد و خواتین گرفتار ہوکر آئیں، تو انہیں غلام و لونڈی بنالیاجائے اور بس۔ اس کے علاوہ اسلام نے دوسری تمام صورتوں کو ناجائزوحرام قرار دیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اس صورت میں بھی غلامی کا طوق کفار نے اپنے گلے میں خود ہی ڈالا ہے، ورنہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کی، مسلمان فوجیوں کو یہ ہدایت تھی کہ: کسی علاقہ کے فتنہ پرور کفار سے جہاد کے وقت عین میدان کارزار میں بھی پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی جائے، مان جائیں تو فبہا، ورنہ دوسرے نمبر پر ان کو کہا جائے کہ بے شک تم اپنے مذہب پر رہو، مگر اسلامی مملکت کے پُرامن شہری بن کر رہو، اور اسلامی حکومت کو جزیہ اور ٹیکس دیا کرو، چنانچہ اگر وہ اس کے لئے راضی ہوجائیں تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر فرض ہے۔ جزیہ دینے کے باوجود بھی اگر کسی مسلمان نے ان کے ساتھ زیادتی کی تو پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

․․․ الا من ظلم معاہدًا او تنقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة“ (ابوداؤد،ص:۷۷، ج:۲)

یعنی کل قیامت کے دن میں اس غیرمسلم ذمی کی طرف سے بارگاہ الٰہی میں زیادتی کرنے والے مسلمان کے خلاف اس غیرمسلم کے وکیل صفائی کا کردار ادا کروں گا۔

گویا اس سے واضح ہوا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار و مشرکین کی حریت و آزادی پرقدغن لگانے اور ان کو غلام بنانے کی حتی الامکان ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر کوئی کوتاہ قسمت غیرمسلم، اسلام کی طرف سے دی گئی ان لازوال سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھاتا، تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنی حریت و آزادی کا دشمن اور اسے ختم کرنے کا ذمہ دار ہے۔

اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی بادشاہ یا حکومت نے اعلان کیا ہو کہ جو شخص ناحق قتل اور ڈاکا زنی کا مرتکب پایاگیا، اُسے زندگی بھر جیل میں رہنا ہوگا۔ اب اگر کوئی بدنصیب حکمِ شاہی کے علی الرغم ان جرائم کا مرتکب پایا جائے اور حکومت اُسے عمر قید کی سزا سنادے تو اس سزا کا ذمہ دار وہ مجرم ہے یا حکومتِ وقت؟ کیا ایسی صورت میں حکومت قابل ملامت ہے یا وہ مجرم؟

بہرحال غلامی کا رواج تو پہلے سے ہی تھا، اب مسلمانوں کے سامنے دو شکلیں تھیں، یا تو وہ بھی جنگ میں گرفتار ہوکر آنے والے قیدیوں کو سابقہ ظالم اقوام کی طرح یکسر قتل کردیتے، یا انہیں زندہ رکھ کر ان کو دنیا کی زندگی سے نفع اٹھانے اور آخرت کے معاملہ میں غور وفکر کا موقع دیتے! ظاہر ہے کہ دوسری صورت ہی قرین عقل و قیاس ہے۔

پھر غلاموں کو زندہ رکھ کر یا تو یورپی اقوام کی طرح ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیاجاتا، یا پھر انہیں مسلم معاشرہ کا حصہ بننے، مسلمانوں میں شادی بیاہ کرنے اور اسلامی معاشرہ کی لازوال خوبیوں سے سرفراز ہونے کا موقع فراہم کیاجاتا۔ چنانچہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکاح کے معاملہ میں مسلمان غلاموں کو مشرکین پر اور مسلمان لونڈیوں کو کافر و مشرک خواتین پر ترجیح دی۔ (البقرہ:۲۲۱، ۲۲۲) اور ان کے حقوق بھی متعین فرمائے۔

عیسائیوں اور قادیانیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ مسلمان، لونڈیوں کے ساتھ بلا نکاح جنسی تعلقات کیوں قائم کرتے ہیں؟

اگر کوئی مسلمان یہ اعتراض کرتا تو شاید قابل سماعت ہوتا، مگر وہ لوگ، جن کی جنسی بے راہ روی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، جن کے ہاں نکاح کی بجائے زناکاری وبدکاری کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جن کے بڑے، چھوٹے اس بلا میں گرفتار ہوں، ان کو اس اعتراض کا کیا حق پہنچتا ہے؟ بہرحال ہم اس کا بھی جواب دئیے دیتے ہیں:

الف: ہم نے گزشتہ صفحات میں بائبل کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ: ”لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔“ اسی طرح: ”اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔“ بتلایا جائے اس میں لونڈی سے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟ ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارہ میں وارد اس تصریح میں کہ : سلیمان کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (سلاطین:۱۱-۳) میں بیویوں اور کنیزوں میں فرق کیوں کیاگیا؟ اور کنیزوں سے ان کے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟

ب: غلام اور لونڈیاں جب مسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں تو ظاہر ہے ان کا اپنے اپنے سابقہ ملک و قوم اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع ہوگیا، اب یا تو انہیں یوں ہی جنگی قیدیوں کی طرح زندگی بھر اذیت میں رکھا جائے اور ان کے جنسی تقاضوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے․․․ جو بالکل ناجائز اور ظلم ہوگا․․․ یا پھر انہیں بدکاری و زناکاری کی اجازت دے دی جائے، جس سے شاید ان کی جنسی تسکین تو ہوجائے گی، مگر اس سے جہاں ان کی دنیا و آخرت برباد ہوگی اور وہ معاشرہ پر بدنما داغ ہوں گے، وہاں وہ مسلم معاشرہ میں گندگی، غلاظت اور معاشرتی بے راہ روی کا ذریعہ بھی بنتے، اس لئے اسلام نے تباین دارین (مسلم وکافر ملک کے درمیان دوری) کو طلاق یا بیوگی کے قائم مقام تصور کرتے ہوئے استبراءِ رحم (رحم کی صفائی) کا حکم دے کر لونڈیوں کے مالکوں کو حکم دیا کہ یا تو ان کا کسی اچھی جگہ عقد نکاح کردیا جائے یا پھر حق ملکیت کی بناپر ان کی جنسی تسکین کا خود انتظام کریں، اس سے جہاں ان کی فطری ضرورت پوری ہوگی، وہاں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جب آقا اور مالک اپنی باندی اور مملوکہ سے گھر کے تمام کاموں میں امداد لے گا اور ساتھ ہی اس کے ساتھ ہم بستر ہوگا تو نفسیاتی طور پر باندی کی حیثیت بالکل ایک خادمہ اور اجنبیہ کی سی نہیں رہے گی؛ بلکہ وہ اس کے ساتھ ایک گونہ انسیت و محبت محسوس کرے گا اور یہ احساس مالک و مملوکہ کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا باعث ہوگا، پھر اگر اس باندی سے بچہ بھی پیداہوگیا تو یہ ام ولد یعنی اس کے بچوں کی ماں بن جائے گی اور مالک کی موت پر وہ آزاد ہوجائے گی، جس سے معلوم ہوا کہ مالک کے باندی سے اس جنسی تعلق کا سراسر فائدہ باندی ہی کو ہے اور اس کے حق میں ہی مفید ہے، کیونکہ اس سے باندی کی آزادی کی ایک راہ نکلتی ہے اور وہ اپنے آقا ومالک کے گھر میں گھر کی مالکہ کی حیثیت سے رہنے کی حق دار ہوگی۔

بتلایا جائے عیسائی معاشرہ کسی باندی کے ساتھ اس حسن سلوک کا روادار ہے؟ ․․․ نہیں، قطعاً نہیں․․․ بلکہ وہ تو اپنی منکوحہ کو بھی داشتہ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج مغرب اور مغربی معاشرہ میں نکاح پر زنا کو ترجیح حاصل ہے۔

ج: غلام اور باندی کے اپنے آقا ومالک کے ساتھ رہنے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان کے اخلاق کی تربیت ہوگی اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے گا، یہی وجہ ہے کہ سوائے چند استثنائی صورتوں کے، مسلمانوں کے پاس آنے والے کافر ومشرک غلاموں اور لونڈیوں میں سے نہ صرف یہ کہ سب مسلمان ہوگئے بلکہ ان میں سے بہت سے حضرات کو مسلمانوں کی ریاست وامارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، جو جیش اسامہ کے امیر تھے، ایک غلام زادہ تھے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کے نمائندہ اور شاہ مصر کے دربار میں جانے والے وفد کے سردار حضرت عبادہ، حبشی اور غلام تھے، اس کے علاوہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کی فتح کے موقع پر اپنے غلام کو سواری پر سوار کرکے، اس کی سواری کے ساتھ ساتھ بھاگنا، کیا اس بات کی کافی دلیل نہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے غلاموں کے بارہ میں مسلمانوں کو ہدایات اور ان کے حقوق کی پاسداری کی خصوصی تلقین فرمائی تھی، جس سے ان کی حیثیت بلاشبہ کسی آزاد سے کچھ کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض غلاموں کو جب ان کے مالکوں کی طرف سے آزادی کی اطلاع ملتی تو بجائے خوش ہونے کے اس پر روتے تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو جب ان کے والدین تلاش کرتے کرتے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو والدین کے ساتھ جانے اور نہ جانے کا اختیار دے دیا تو انھوں نے آزادی اور والدین کے ساتھ جانے پر غلامی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کو ترجیح نہیں دی؟کیا اب بھی عیسائیوں ، قادیانیوں کو مسلمانوں کے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک پر اعتراض کا حق ہے؟

سوال (۶) ”مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کو جہاد قرار دے کر اسے اسلام کا پانچواں بنیادی رکن بنانے کی سزا ماضی کے لاکھوں کروڑوں معصوم انسان بے شمار جنگوں کے نتیجے میں اپنی جان مال سے محروم ہوکر بھگت چکے ہیں اور عراق، افغانستان جنگ کی شکل میں آج بھی بھگت رہے ہیں، آخر اس ”جہاد“ کو بذریعہ اجتہاد ”جارحیت“ کے بجائے ”دفاع“ کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟“

جواب: اس سوال کا جواب کسی قدر چوتھے سوال کے جواب کے ضمن میں آچکا ہے اور ثابت کیا جاچکا ہے کہ جہاد کاحکم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

نیز یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اسلام نے جہاد کا حکم کفر وشرک کے فتنہ کے استیصال کے لئے دیا ہے اور یہ عقل وانصاف کے عین مطابق ہے، اگر دنیا کے دو پیسے کے حکمراں، اپنی مخالفت اور بغاوت کرنے والوں کی سرکوبی، ان کے فتنہ کو ختم کرنے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے لاکھوں انسانوں کا خون بہاسکتے ہیں تو مالک ارض و سما کی ذات، جس نے جنوں اورانسانوں کو اپنی طاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا تھا، اگر وہ (جن وانس) اس سے بغاوت کا ارتکاب کریں تو کیا اس ذات کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں اور اپنی سپاہ کے ذریعہ ان کی سرکوبی کرے؟ اسلامی جہاد کے نام پر نام نہاد قتل وغارت گری کا طعنہ دینے والوں کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ۲۳ سالہ نبوی تاریخ گواہ ہے کہ اس عرصہ میں صرف ساڑھے تین سو مسلمانوں شہید ہوئے اور اس سے کچھ زیادہ کفار بھی کام آئے، نامعلوم اس کے مقابلہ میں ان کو اسلام دشمنوں کی انسانیت کشی کی تاریخ کے سیاہ کارنامے کیوں بھول جاتے ہیں؟ اورانہیں یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور جہاد کو دہشت گردی کہنے والے درندوں نے کس قدر انسانوں کو تہ تیغ کیاہے؟

ہیروشیما، ناگاساکی میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، بوسنیا ہرزیگوینا میں مختصر عرصہ میں پانچ لاکھ انسانوں کو موت کی نیندسلانا، فلسطین، بیروت، افریقہ، افغانستان، عراق اور لبنان کی حالیہ تباہی، کن کے ہاتھوں ہورہی ہے؟

قادیانیو! اپنے آقاؤں سے پوچھو، کہ اس وقت روس، امریکا اور دنیا بھر کی عیسائیت ویہودیت کون سے جہاد کے نام پر انسانیت کشی کا کارنامہ انجام دے رہی ہے؟

کیا جرمنی کے ہٹلر کی انسان کشی بھی جہاد کے نام پر تھی؟ اسی طرح ویتنام اور وسط ایشیا میں آدم دشمنی کس نے کی؟ کیا اس کو بھی اسلام اور اسلامی جہاد کا نتیجہ قرار دیا جائے گا؟

قادیانیو! اگر تمہارے اندر ذرہ بھر شرم و حیا کی رمق اور انسانیت سے خیرخواہی ہے تو ڈوب مرو، اور جہاد کو مطعون کرنے کے بجائے اپنے آقاؤں سے کہو کہ انسانیت کشی کے اس بدترین کھیل سے باز آجائیں۔

دیکھا جائے تو جہاد کا مقدس فریضہ ایسے ہی درندوں کو سبق سکھانے اور ان کی راہ روکنے کا موٴثر ذریعہ ہے، مگر چونکہ تمہارے آقاؤں نے کہا کہ یہ دہشت گردی ہے، اس لئے تم اور تمہارے باوا مرزا غلام احمد قادیانی اس کو حرام قرار دینے کے لئے گزشتہ سو سال سے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرنے میں مصروف ہو۔

مگر میرے آقا کا فرمان ہے کہ: ”الجہاد ماض الی یوم القیامة“ (مجمع الزوائد، ص:۱۰۶، ج:۱) (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) اور اس کے ذریعہ مسلمان، عیسائیوں اور قادیانیوں کی راہ روکتے رہیں گے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 91 ‏، ربیع الثانی1428 ہجری مطابق مئی2007ء